بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، سوموار (18 اگست 2025) کو موصولہ رپورٹ کے مطابق، اسرائیلی فوجی انٹلیجنس کے سابق کمانڈر نے ایک آڈیو میں کہا ہے کہ فلسطینیوں کو ہر چند سال بعد ایک بارے "یوم النکبہ" (يوم النكبة = Day of Catastrophe بربادی کا دن) کے تجربے گذرنا چاہئے۔
صہیونی فوجی انٹلیجنس کے سابق سربراہ اہارون ہالیوا (Aharon Haliva) نے اسرائیلی چینل 12 پر جمعہ کو جاری کی گئی ان آڈیو ریکارڈنگز میں کہا ہے: "7 اکتوبر (طوفان الاقصیٰ آپریشن) میں ہونے والے ہر واقعے کے بدلے، ہر ایک اسرائیلی کے بدلے 50 فلسطینیوں کو مرنا چاہئے؛ کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ وہ بچے ہوں یا نہ ہوں۔"
ہالیوا نے مزید کہا: "یہ حقیقت کہ ہم نے اب تک غزہ میں 50 ہزار افراد مارے ہیں، آنے والی نسلوں کے لئے ضروری اور لازم ہے۔"
ان بیان کی صحیح تاریخ تو واضح نہیں ہے، لیکن اپریل 2025ع میں (تقریباً 5 ماہ قبل) غزہ جنگ میں شہید ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد 50 ہزار سے تجاوز کر گئی تھی [اور گویا کہ صہیونیوں کا یہ وحشیانہ خونی پیمانہ بھر چکا تھا اور اس عرصے میں جو کچھ ہوتا رہا ہے یا اگلے مہینوں میں جو کچھ ہوگا، اضافی قتل کے زمرے میں آ رہا ہے!]
ہالیوا کا کہنا تھا کہ "اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے، انہیں وقتاً فوقتاً ایک یوم النکبہ کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ اس کی قیمت چکا دیں۔"
یوم النکبہ سے مراد مئی سنہ 1948ع کا وہ دن ہے جب اسرائیلی ریاست کے قیام کے دعوے کے بعد مسلح صہیونی ٹولوں نے وسیع پیمانے پر قتل عام کے بعد 7 لاکھ سے زائد فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے نکال باہر کیا تھا اور انہیں جبری نقل مکانی پر مجبور کر دیا تھا۔
ہالیوا آپریشن الاقصیٰ طوفان کے دوران اسرائیل کی ملٹری انٹیلی جنس کا سرغنہ تھا۔ اس کے بعد اس نے اپریل 2024 میں استعفیٰ دے دیا، وہ طوفان الاقصیٰ آپریشن کے بعد ـ بظاہر آپریشن میں صہیونی انٹیلی جنس کی بدترین ناکامی کی بنا پر ـ مستعفی ہونے والا پہلا سینئر IDF افسر بن گیا۔
لگتا ہے کہ ہالیوا کے ساتھ تفصیلی بات چیت کی طویل آڈیو ریکارڈ بنائے گئے ہیں، لیکن صہیونی میڈیا آؤٹ لیٹ نے اس شخص کی شناخت ظاہر نہیں کی ہے جس سے یہ مستعفی افسر بات کر رہا ہے۔ تمام ٹیپس میں ہالیوا کا بنیادی دعویٰ یہ ہے کہ آپریشن طوفان الاقصیٰ سے متعلق اسرائیل کی ناکامیوں کا واحد ذمہ دار ادارہ 'صہیونی فوج (IDF) نہیں ہے۔
وہ اسرائیل کے سیاسی حکام اور داخلی سلامتی کے ادارے شن بیت کو بھی اس بات کا ذمہ دار ٹہراتا ہے کہ فلسطینی مزاحمتی تحریک (حماس) کوئی حملہ نہیں کرے گی۔
ہالیوا نے اسرائیل کے چینل 12 کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے بتایا "یہ تبصرے ایک نجی ملاقات میں کیے گئے تھے اور میں ان کی اشاعت عام پر صرف "افسوس" کا اظہار کر سکتا ہوں۔"
اس نے کہا: "یہ ٹیپس کہانی کا ایک چھوٹا سا حصہ ہیں جو مکمل تصویر کی عکاسی نہیں کر سکتیں، خاص طور پر جب بات پیچیدہ مسائل اور تفصیلات سے متعلق ہو، جن کا ایک بڑا حصہ انتہائی خفیہ (Top secret) ہو۔"
یہ آڈیو فائل ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب اسرائیل غزہ میں جنگ، نسل کشی اور اس پٹی پر مکمل قبضے کے نئے منصوبوں پر بڑھتے ہوئے بین الاقوامی تنقید کا سامنا کر رہا ہے؛ ایک ایسا منصوبہ جسے یورپ سمیت دنیا کے متعدد ممالک نے مسترد کیا ہے اور حتی کہ اس کی مذمت کی ہے۔
حماس نے ایک بیان میں ہالیوا کے بیانات کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ "یہ آڈیو کلپ اس حقیقت کی تصدیق کرتا ہے کہ ہمارے عوام کے خلاف جرائم دشمن کی اعلیٰ قیادت کے فیصلوں اور اس کی سیاسی و سیکیورٹی قیادت کی سرکاری پالیسی کا نتیجہ ہیں"۔
گذشتہ سال نومبر میں اقوام متحدہ کی ایک خصوصی کمیٹی نے رپورٹ دی تھی کہ "اسرائیل کا غزہ میں رویہ نسل کشی کی خصوصیات پر پورا اترتا ہے"۔ اسرائیلی انسانی حقوق کے دو گروپوں نے بھی گذشتہ مہینے صہیونی ریاست پر، غزہ میں، نسل کشی کے ارتکاب کا الزام لگایا تھا۔
اسرائیلی فوج نے ـ معمول کے مطابق ـ ان الزامات کو "بالکل بے بنیاد" قرار دیا تھا۔ اسرائیل بارہا نسل کشی کے الزامات کو مسترد کر چکا ہے اور دعویٰ کرتا ہے کہ وہ بین الاقوامی قوانین کے مطابق عمل کر رہا ہے۔ [یعنی فلسطینیوں کے عوام کے قتل عام اور انہیں مصنوعی قحط اور جبری بھکمری میں مبتلا کرنا، 'بین الاقوامی قوانین' کے عین مطابق ہے]۔
ادھر غزہ کی صحت وزارت نے آج (18 اگست) کو اعلان کیا کہ جنگ کے آغاز سے اب تک صہیونی ریاست کے حملوں میں 62,004 افراد شہید اور 156,230 زخمی ہو چکے ہیں جن میں اکثریت بچوں اور خواتین اور بزرگوں کی ہے اور 10000 کے قریب فلسطینی لاپتہ یا ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔
نکتہ:
اسی لاکھ یہودیوں نے مسلمانوں کی سرزمین 'فلسطین' اور ان کے قبلۂ اول "مسجد الاقصیٰ" پر 77 برسوں سے قبضہ کر رکھا ہے اور مذکورہ بالا صہیونی جلاد نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ فلسطینیوں کے لئے یوم النکبہ باربار دہرانا چاہئے، یا ہر اسرائیلی ہالِک کے بدلے 50 ہزار فلسطینیوں کو قتل ہونا چاہئے، اور یہ سب صہیونی ریاست کی بقاء کے لئے ضروری ہے، اور پھر یہودی درندے عملی میدان میں بھی انہيں ٹھنڈے پیٹوں کو قتل کر رہے ہیں جس کا سبب یہ ہے کہ اس صہیونی مفروضے کو 'مغربی تہذیب' کی مکمل حمایت حاصل ہے اور حال ہی میں جرمن چانسلر نے صریحا کہہ دیا ہے کہ "مغرب کو اسرائیل کا شکریہ ادا کرنا چاہئے کیونکہ وہ 'یہ گندا کام' مغرب کے لئے کر رہا ہے"، اور دوسری طرف سے دو ارب مسلمان اور عرب بھی فلسطینیوں کے لئے کوئی بھی قدم اٹھانے کے قابل نہیں ہیں اور وہ سب مجرمانہ خاموشی اختیار کئے بیٹھے ہیں۔ فلسطینی آگ، آہن، بھوک اور پیاس کے نرغے میں تنہا رہ گئے ہیں؛ گوکہ اب واضح ہو رہا ہے کہ صہیونی وزیر اعظم عرب ممالک کو بھی 'گریٹر اسرائیل' بنانے کے لئے نشانہ بنانے کا ارادہ رکھتا ہے اور یوں لگتا ہے کہ بربادی کا یہ بھوت تمام اسلامی اور عرب ممالک کے دروازے پر ضرور دستک دے گا۔ خبردار کرنے کا وقت شاید گذر چکا ہے۔ چنانچہ خاموش امت کو مزید خبردار کرنا بے کار ہے، اب سب کو اپنے بچاؤ کے لئے فکرمند ہونا چاہئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: ابو فروہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ